Friday, December 31, 2010
Friday, December 10, 2010
Tuesday, October 5, 2010
MUMTAZ ALAM RIZVI BUREAU CHIEF SAHAFAT URDU DAILY IS TALKING WITH IPS OFFICER S ZAHOOR H ZAIDI ABOUT LIFE AND WORKS AT RAIL BHAWAN
MUMTAZ ALAM RIZVI IS TALKING WITH DG FILM DIRECTORATE AND EX ADVOISOR PRESIDENT OF INDIA A P J ABDUL KALAM MR. S M KHAN ON HIS LIFE AND WORKS
Wednesday, September 22, 2010
Tuesday, June 8, 2010
مشیرالحسن کیسے رہ سکتے ہیں مکتبہ جامعہ کے چیئرمین ؟
جامعہ ملیہ اسلامیہ کا مکتبہ جامعہ میں 90فیصد شیئر پھر بھی ادارہ لاوارث،نئے چیئرمین کا کب ہو گا انتخاب
مکتبہ جامعہ پر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کا رد عمل
جامعہ نہیں کرنا چاہتی گھاٹے کا سودا
استعفیٰ کے بغیر نئے چیئرمین کا انتخاب ممکن نہیں
بورڈ آف ڈائریکٹر کی میٹنگ نہ ہونا افسوسناک
ممتاز عالم رضوی
نئی دہلی ،7جون ،سماج نیوز سروس :بین الاقوامی شہرت یافتہ اردو کی کتابیں شائع کرنے والا منفرد ادارہ مکتبہ جامعہ جس بدترین دور سے گزر رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اس نقصان میں چل رہے ادارے کو اپنے ساتھ نہیں جوڑنا چاہتا حالانکہ مکتبہ جامعہ میں تقریبا 90فیصد شیئرجامعہ ملیہ اسلامیہ کاہے ۔اس ادارے کے انتظام و انصرام کے لیے ڈائریکٹرز بورڈموجود ہے جس کا اپنا منتخب کردہ چیئرمین بھی ہوتا ہے ۔خصارے میں چل رہے اس ادارے سے کس قدر لاپروائی برتی جا رہی ہے اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی بورڈ آف ڈائریکٹر کی میٹنگ نہیں کی گئی ورنہ کیا وجہ ہے کہ جامعہ کے سابق وائس چانسلر پروفیسر مشیر الحسن وائس چانسلر نہ ہوتے ہوئے بھی اب تک مکتبہ جامعہ کے چیئرمین بنے ہوئے ہیں ۔واضح رہے کہ اس وقت بورڈ آف ڈائریکٹر میں پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی ،خواجہ شاہد ،پروفیسر محمد میاں جواب مولانا آزاد اردویونیورستی حیدرآباد کے وائس چانسلر ہیں وغیرہ شامل ہیں ۔چیئرمین کے انتخاب اور مکتبہ کی موجودہ صورت حال پر جب ہمارا سماج نے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی سے گفتگو کی تو انھوں نے کہا کہ چیئرمین کے انتخاب کے لیے مکتبہ کا ایک دستور ہے ۔ جب چیئرمین ریٹائرڈ ہوتا ہے تواس کے نئے چیئرمین کا انتخاب بورڈ آف ڈائریکٹرکرتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جہاں تک پروفیسر مشیر الحسن کا تعلق ہے تو وہ کسی تکنیکی وجہ کے سبب اب تک چیئرمین بنے ہوئے ہیں اور ان کے جانے کے بعد میٹنگ بھی نہیں ہو سکی ۔کیا مکتبہ کا چیئرمین جامعہ کا وائس چانسلر ہی ہوتا ہے اس پر پروفیسر قدوائی نے کہا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔یہ تو بورڈ آف ڈائریکٹر طے کرتا ہے اور کوئی بھی ممبر اس کا چیئرمین ہو سکتا ہے ۔اس سے پہلے ظہور قاسم، مالک رام ،مجیب صاحب جیسی شخصیتیں چیئرمین رہ چکی ہیں ۔جب جامعہ کا شیئر سب سے زیادہ ہے تو اس کی نمائندگی مکتبہ میں کم کیوں ہوتی ہے ؟اس سوال پر پروفیسر قدوائی نے کہا کہ نمائندگی کم ہوتی ہے یا زیادہ یہ ایک دوسری بات ہے لیکن جامعہ کی نمائندگی ہوتی اور ایک دو ممبر جامعہ کے بورڈ میں ہوتے ہیں ۔آخر کیا وجہ ہے کہ 90فیصد شیئرہونے کے باؤجود جامعہ اپنے اس خستہ حال ادارے کو ٹیک اوور نہیں کر رہی ہے ؟اس سوال پر انھوں نے کہا کہ جامعہ کسی بھی صورت میں ٹیک اوور کر ہی نہیں سکتی اور کیا پڑی ہے جامعہ کو کہ وہ گھاٹے کا سودا کرے ۔1949میں جب مکتبہ جامعہ بند ہونے کے دہانے پر تھا تو اس وقت اسے پرائیویٹ لمٹیڈ کمپنی میں منتقل کر دیا گیا اور اس کے شیئربیچے گئے تاکہ اسے بند ہونے سے بچایا جا سکے۔جب جامعہ کی حالت درست ہوگی تو وہ مکتبہ کو ٹیک اوور کر لے گا ایسا کوئی معاہدہ ہوا ہے مجھے علم نہیں ہے۔بہت ممکن ہے کہ بورڈآف ڈائریکٹرکی یہ آپسی انڈراسٹینڈنگ رہی ہو لیکن کوئی تحریری معاہدہ ہوا ہو مجھے نہیں لگتا ۔ مکتبہ جامعہ کی خستہ حالی پر انھوں نے کہا کہ یہ بالکل درست ہے کہ مکتبہ کی حالت صحیح نہیں ہے ۔ملازمین کی کمی ہو گئی ،دکانیں بند ہو رہی ہیں ،نئی کتابوں کی کمی ہو گئی ہے ،ملازمین کی تنخواہیں نہ کے برابر ہیں ۔انھوں نے کہا کہ در اصل اب اردو کی کتابیں فروخت نہیں ہوتیں ۔نصابی کتابوں کو شائع کرنے کے جو آرڈرز اس کو مختلف ریاستوں سے ملتے تھے وہ بند ہو چکے ہیں کیونکہ اب ریاستیں خود اپنی کتابیں شائع کر رہی ہیں ،این سی پی یو ایل اپنی کتابیں خود شائع کرنے لگا ۔جہاں تک نئے پبلشرز کا تعلق ہے تو وہ گھریلو انڈسٹریز کے طور پر چلا رہے ہیں جس کے سبب انھیں تھوڑی بہت آمدنی ہو جاتی ہے اور مکتبہ جامعہ گھریلو نہیں بلکہ ایک پرائیویٹ لمٹیڈ کمپنی ہے جو ایک ضابطہ کے تحت چلتاہے ۔انھوں نے کہا کہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مکتبہ کے پاس پیسے کی کمی ہے۔بوانہ میں موجود زمین اور پرنٹنگ پریس کے سلسلہ میں پوچھے گئے سوال پر انھوں نے کہا کہ جب ادارے کے پاس پیسے ہو جائیں گے تو وہاں کچھ کر لیا جائے گا ۔پریس تو شروع سے نقصان میں چل رہا تھا ۔آئے دن اس کے ورکرز ہڑتال کر دیتے تھے لہٰذا اسے بند کرنا پڑا ۔انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں ادارہ چلے اور اس کے لیے اب تک جامعہ کو کئی پرپوزل دیے جا چکے ہیں ۔کتابوں کی ہو رہی بربادی کے سلسلہ میں انھوں نے کہا کہ جو مکتبہ کی زمین تھی وہ جامعہ نے اپنے قبضہ میں کر لی ہے لہٰذا جگہ نہ ہونے کے سبب کتابیں خراب ہو رہی ہیں ۔واضح رہے کہ اس مظلوم ،یتیم اور بے سہارا ادارہ کا قیام 1922میں اردو کی نایاب ،معیاری اور نصابی کتابوں کی اشاعت کے لیے عمل میں آیا تھا ۔اپنی بہترین اور کامیاب اشاعت کے سبب ہندوستان میں یہ کتابوں کی اشاعت اورفروخت کا اہم ترین مرکز بن گیا اور اسے جلد ہی بین الاقوامی شہرت حاصل ہو گئی ۔اس کی مقبولیت کا اثر جامعہ ملیہ اسلامیہ پر بھی پڑا ۔اشاعت کا شاندار سلسلہ 1922سے 1949تک جاری رہا کہ جب تک ملک آزاد نہیں ہوا تھا لیکن ملک کے آزاد ہوتے ہی ہندوستانی مسلمانوں کی طرح اس ادارے کے بھی بربادی کے دن شروع ہو گئے۔ 1949میں ہی قرول باغ واقع مکتبہ جامعہ کو جامعہ ملیہ اسلامیہ ،جامعہ نگر منتقل کر دیا گیا۔1949تک یہ ادارہ سوسائٹی کے تحت چلایا جا رہا تھا لیکن اردو کے اکابرین نے ادارے کی اقتصادی صورت حال کوبہتر بنانے کے لیے چند بااثر شخصیات کی مدد لی اور اسے لمٹیڈ بنا دیاگیا تاہم اس کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی ۔دلچسپ یہ ہے کہ مکتبہ جامعہ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا تقریبا 90فیصد حصہ (شیئر) ہے اور اس لحاظ سے مکتبہ جامعہ کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے دستورجو کہ پیج نمبر 56میں موجود کے مطابق مکتبہ جامعہ کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کا حصہ ہونا چاہئے اور جس طرح 1988میں جامعہ کی تمام چیزوں کو ٹیک اوور کیا گیا مکتبہ جامعہ کو بھی جامعہ کا حصہ بنا لینا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔حالانکہ مکتبہ جامعہ کے پاس پرنٹنگ پریس ،اراضی اور نایاب کتابیں ہیں جس سے جامعہ کو کسی طرح کا نقصان نہ ہوگا بلکہ اس سے جامعہ کو مزیدفائدہ ہوگا اور اس کے پاس نایاب، معیاری اورنصابی کتابوں کو شائع کرنے کا اہم ادارہ ہوجائے گا لیکن نہ جانے کس سازش کے تحت اسے دودھ میں پڑی مکھی کی طرح اس ادارے کو نکال کر پھینک دیا گیا
Saturday, May 1, 2010
Monday, April 26, 2010
Sunday, April 25, 2010
Thursday, April 22, 2010
Sunday, April 18, 2010
Monday, April 12, 2010
Sunday, April 11, 2010
Saturday, April 10, 2010
Sunday, April 4, 2010
Wednesday, March 31, 2010
Sunday, March 21, 2010
Saturday, March 20, 2010
Tuesday, March 2, 2010
Saturday, February 27, 2010
Thursday, February 18, 2010
Monday, February 15, 2010
Subscribe to:
Posts (Atom)